Friday, December 6, 2013

کامیابی کا راز: ناکامی سے نمٹنا سیکھیے


کامیابی کا راز: ناکامی سے نمٹنا سیکھیے

سال رواں کے لیے نوبل انعام کے حقدار قرار پانے والے سائنسدانوں میں سے ایک جیمز روتھمین نے کہا ہے کہ کامیابی کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ انسان یہ سیکھ لے کہ اسے اپنی ناکامی سے کس طرح نمٹنا ہے۔
جیمز روتھمین
امریکا سے تعلق رکھنے والے جیمز روتھمین کو ان کے ہموطن محقق رینڈی شَیکمین اور جرمن نژاد امریکی ماہر تھوماس زُوڈہوف کے ہمراہ مشترکہ طور پر اس سال کے نوبل انعام برائے طب کا حقدار ٹھہرایا گیا تھا۔ سٹاک ہوم سے ملنے والی رپورٹوں میں خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے بتایا ہے کہ روتھمین نے جمعے کی رات سویڈن کے دارالحکومت میں طلبا اور صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سائنسی تحقیق کا مطلب تقریباﹰ ہمیشہ ہی یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے خواہش کردہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
2013ء کے نوبل میڈٰیسن انعام کے حقدار تینوں سائنسدان
تاہم اس امریکی سائنسدان نے زور دے کر کہا کہ کسی بھی فرد کے لیے اور کسی بھی کام میں کامیابی کی کنجی یہ ہے کہ انسان یہ سیکھ لے کہ اسے اپنی ناکامی سے کس طرح نمٹنا ہے یا ناکامی کی صورت میں اس کا رویہ کیسا ہونا چاہیے۔
جیمز روتھمین کے مطابق کسی عظیم سائنسدان اور کسی بدقسمت سائنسدان کے درمیان زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا، ’’ایک عظیم سائنسدان بھی اپنے کام میں 99 فیصد کوششوں میں ناکام رہتا ہے جبکہ ایک بدقسمت سائنسدان اپنی 99.9 فیصد کوششوں میں ناکام رہتا ہے۔‘‘
اپنے تعلیمی کیریئر کی مثال دیتے ہوئے 63 سالہ روتھمین نے کہا کہ وہ نیورو سائنس کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن ہارورڈ یونیورسٹی نے ان کا نیورو سائنس میں داخلہ مسترد کر دیا تھا۔ اس پر انہوں نے بائیو کیمسٹری میں تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔ جیمز روتھمین کے بقول، ‘‘اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں ایک کافی اچھا بائیو کیمیسٹ بن گیا۔‘‘
یہ تینوں سائنسدان آئندہ منگل کے روز سٹاک ہوم میں دیگر بہت سے ماہرین کے ساتھ مل کر ایک شاندار تقریب میں اپنے انعام وصول کریں گے۔ انہیں مشترکہ طور پر 1.2 ملین ڈالر کے برابر رقم بھی انعام کے طور پر دی جائے گی، جس کی وجہ ان کی طرف سے اس بارے میں کی جانے والی تحقیق بنی کہ کلیدی نوعیت کے حامل مختلف مادوں کی خلیوں کے اندر نقل و حمل کس طرح عمل میں آتی ہے۔
جرمن نژاد امریکی ماہر تھوماس زُوڈہوف
امسالہ نوبل میڈیسن پرائز کے حقدار ٹھہرائے جانے والوں میں سے روتھمین کی عمر 63، شَیکمین کی 64 جبکہ زُوڈہوف کی عمر 57 برس ہے۔ ان ماہرین نے سٹاک ہوم میں طلبا اور صحافیوں سے اپنے خطاب میں اپنی اپنی انفرادی زندگی کی کچھ باتیں اور اہم تجربات بھی بیان کیے۔
شَیکمین نے کہا کہ ان کی سائنسی علوم میں دلچسپی لڑکپن میں ہی شروع ہو گئی تھی اور وہ ہائی اسکول کے دنوں میں اپنی کھلونا خوردبین کے ذریعے ایک جوہڑ میں پائے جانے والے کیچڑ کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ اس کے برعکس تھوماس زُوڈہوف نے کہا کہ ہائی اسکول کے دنوں میں ان کی سوچ یہ تھی کہ سائنس ’کافی بور کر دینے والی چیز ہے‘۔

No comments:

Post a Comment